اردو کے بڑے سے بڑے دانش ور،مصنف ،ادیب و مفکر عموماً لوگوں کی کتابوں سے بے رغبتی کا رونا روتے رہتے ہیں،جو بہت حد تک درست بھی ہے،مگر کلیتاً درست نہیں ہے۔اچھی کتابیں ہرزبان کی،ہردور میں پڑھی جاتی رہی ہیں ،اب بھی پڑھی جاتی ہیں اور آیندہ بھی پڑھی جاتی رہیں گی۔اس حقیقت کا عملی ثبوت آج عالمی یومِ کتاب کی مناسبت سے قومی اردو کونسل نے فراہم کیا ہے؛چنانچہ دہلی کی چار مرکزی یونیورسٹیوں کے شعبہ ہاے اردو کے اشتراک سے کونسل نے آج جہاں کتاب سے متعلق چار مختلف موضوعات پراہم لیکچرز کا انعقاد کیا،وہیں ان دانش گاہوں میں کتابوں کی نمایش کا بھی اہتمام کیا گیا،جس میں اسکالرز اورطلبہ و طالبات نے کثیر تعداد میں کتابیں خریدیں۔دہلی یونیورسٹی میں پروفیسر ابوبکر عباد صاحب نے’علمی معاشرے میں کتاب اور قرأت کی اہمیت و افادیت‘ پر نہایت پرمغز گفتگو کرتے ہوئے فرد اور معاشرے پر کتاب بینی کے انقلابی اثرات پر روشنی ڈالی ،جبکہ جواہر لعل نہرو یونیورسٹی میں ’کاپی رائٹ کی باریکیاں اور اس کے متعدد پہلو‘، جامعہ ملیہ اسلامیہ میں’کاغذ،کتاب اور زندگی کی عجیب کہانیاں‘ اور جامعہ ہمدرد میں’کتابیں اور شخصیت سازی:اہمیت و افادیت‘ کے عناوین پر لیکچرز ہوئے۔ان میں موضوعاتی سطح پر قدرے تنوع تھا، مگر ان کا ارتکاز اسی پر تھا کہ نسلِ نو میں کتاب بینی کا شوق بیدار کیا جائے،مطالعے کا ذوق ابھارا جائے اور زندگی کے علمی و عملی سفر میں کتاب کی رفاقت کتنی ناگزیر ہے،اس کا احساس جاگزیں کیا جائے۔